Monday, June 28, 2021

پاکستان کی وادی کافرستان, جہاں زیادہ تر لوگ آگ پرستی اور بت پرستی کے قائل ہیں

 

kalash valley, hotels in kalash valley, kalash valley hotels, kalash valley girl number, kalash valley pakistan, weather chitral, chitral, chilam josh

پاکستان کی وادی کافرستان, جہاں زیادہ تر لوگ آگ پرستی اور بت پرستی کے قائل ہیں

کوہ ہندوکش کے جنوب میں ایک قبیلہ ہے جسے کافرستان یا وادی کیلاش کہا جاتا ہے۔ کیلاش چترال شہر سے دو گھنٹے کی مسافت پر آباد ہے۔ ان کے آباؤ اجداد شام سے نقل مکانی کر کے یہاں آباد ہوئے۔ ان کی زبان سنسکرت اور فارسی کا مجموعہ ہے جسے یہ لوگ " کیلاشو" ہیں۔

یہاں کے لوگ خوبصورت ہیں اس وادی کی طرح، اکثریت کا تعلق آگ پرستی اور بت پرستی سے ہے ۔لیکن چند لوگوں نے اسلام بھی قبول کر رکھا ہے۔ ناچنا اور جانور کی قربانی کرنا ان کی مذہبی رسومات میں شامل ہے۔

کیلاش عورتیں لمبی اور کالی پوشاک پہنتی ہیں۔ جو کہ موتیوں سے سجائی گئی ہوتی ہیں۔ کالے لباس کی وجہ سے ان کو چترال میں ساہ پوش کہا جاتا ہے۔ جبکہ مرد پاکستان میں استعمال ہونے والے عام لباس شلوار قمیض پہنتے ہیں۔

پاکستانی معاشرے کے برعکس کیلاش میں عورتوں اور مردوں کا میلاپ برا نہیں سمجھا جاتا۔ وادی کیلاش میں" پاچلانی" ایک ایسا گاؤں ہے جو صرف عورتوں کے لیے مخصوص ہے جہاں پر صرف حاملہ عورتیں رہتی ہیں. ایک مخصوص روایت اور پاک ہونے کے بعد عورتیں واپس اپنے شوہر کے پاس چلی جاتی ہیں۔

کیلاش قبیلے کی ثقافت چترال میں آباد تمام قبیلوں سے مختلف ہے۔ ان کی مختلف ثقافت دیکھنے کے لئے دنیا بھر سے لوگ یہاں آتے ہیں۔ کیلاش میں خدا کا تصور موجود ہے لیکن کسی پیغمبر یا کتاب کا تصور موجود نہیں۔ یہاں کسی بچے کی پیدائش اور انسان کا فوت ہونا دونوں ہی خوشی کے موقع ہیں۔

جب کوئی مرتا ہے تو اسے کمیونٹی ہال میں ایک دن کے لئے رکھ دیا جاتا ہے۔تمام کیلاش کے لوگ وہاں جمع ہوتے ہیں ان کے لیے کھانا اور شباب و کباب کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ اس قبیلے کے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ مرنے والوں کو خوشی خوشی دنیا سے الواع کرنا چاہیے اور آخری رسومات کا جشن منایا جائے۔ فوتکی پر ہوائی فائرنگ کی جاتی ہے اور مردہ کے ساتھ پیسے ،سگریٹ اور شراب رکھی جاتی ہیں۔پرانے وقتوں میں یہ لوگ مردوں کو تابوت میں ڈال کر ویرانے میں چھوڑ آتے تھے۔ لیکن اب وہاں دفنانے کا رواج ہے۔حیرت انگیز طور پر کیلاش قبیلے میں ہونے والی فوتکی خاندان کو کم سے کم آٹھ لاکھ اور زیادہ سے زیادہ 40 لاکھ تک اٹھانا پڑتا ہے۔

موت کی طرح ان کے ہاں شادی اور پیدائش کے لئے بھی عجیب رسومات ہیں۔ شادی کیلئے لڑکی لڑکے کو بھگا کر لے جاتی ہے۔لڑکی کے والدین، لڑکے کے والدین اور گاؤں کے معزز لوگوں کو اس کی خبر کرتے ہیں۔لڑکی کے گھر والے لڑکی سے تصدیق کرتے ہیں کہ اس پر کسی قسم کی زور زبردستی تو نہیں کی گئی اور اس کے بعد دعوت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ شادی کے چھوتے روز لڑکی کا ماموں لڑکی کے گھر آتا ہے۔ جس لڑکے والے ایک بیل اور بندوق بطور تحفہ دیتے ہیں اور اسی طرح کئی دنوں تک خاندانوں میں تحائف کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔

حیران کن طور پر کیلاش قبیلے کی شادی شدہ عورتوں کو بھی بھگایا جا سکتا ہے اور اگر عورت کی مرضی اس میں شامل ہو تو پہلا شوہر کسی قسم کا اعتراض نہیں کر سکتا۔پہلے بچے کی پیدائش پر لڑکے والوں کی جانب سے تمام رشتہ داروں کو نہ صرف دعوت دی جاتی ہے بلکہ ان کو بھرپور کھانے کے ساتھ ساتھ رقم بطور تحفہ دی جاتی ہیں اور یہ عمل اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک مخالف جنس کا بچہ پیدا نہ ہو۔

کیلاش میں پیدا ہونے والا ہر بچہ رہتا تو پاکستان میں ہے لیکن ہر بچے کے نام سے یورپین این جی اوز ایک اکاؤنٹ کھولتی ہیں اور ان بچوں کو ماہانہ پابندی کے ساتھ رقم بھیج جاتی ہے۔ جس میں لوگوں سے درخواست کی جاتی ہے کہ اگر وہ کیلاش مذاہب سے بیدار ہے تو عیسائیت اپنا لیں۔ کیلاش کی خواتین کو مسلمان لڑکوں سے شادی کی اجازت ہے اور اس کا رجھان بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف کیلاش مذاہب کے لوگ بلکہ یورپی این جی اوز میں بھی پریشانی بڑھتی جا رہی ہے۔

 

Share:
Location: Pakistan

0 comments:

Post a Comment